ایئرپورٹ پر امیگریشن وغیرہ سے فارغ ہوکر، سب لوگ احرام باندھنے کی تیاری کررہے تھے ایک ہریانوی دیہاتی بزرگ نے بھائی صاحب سے معلوم کیا کہ حاجی صاحب وضو کی جگہ بتادیں، بھائی صاحب ان کی ضعیفی پر ترس کھا کر ان کو لے کر گئے، وضو کرایا، ان کو احرام باندھنا بتایا اور دو رکعت نفل، تلبیہ وغیرہ پڑھوائی، بوڑھے دیہاتی نے خوش ہوکر کہا حاجی جی بہت بہت شکریہ!آپ کہاں سے آئے ہو؟ بھائی صاحب نے بتایا کہ مظفرنگر ضلع سے، مظفرنگر میں کہاں سے؟ بولے ایک گاؤں ہے پھلت۔ پھلت کا نام سنا تو وہ چونک گئے وہ اس حقیر سے ملنے کے حد درجہ خواہش مند تھے، کئی بار دہلی اور پھلت جاچکے تھے، بولے آپ (میرا نام لے کر پوچھا) کو جانتے ہو؟ بھائی صاحب نے کہا ان کا بڑا بھائی ہوں وہ ان کے ہاتھ چومنے لگے، بھائی صاحب نے محبت دیکھی تو پوچھا کہ آپ ان سے ملنا چاہتے ہیں؟ وہ بولے کیسے؟ بھائی صاحب ان کا ہاتھ پکڑ کر میرے پاس لے آئے بولے: یہ تمہارے (فلاں) ہیں، اس بھولے بھالے اللہ والے کا حال دیکھنے کے لائق تھا، اس حقیر سے ملتے جاتے اور انتہائی حضوری کی کیفیت کے ساتھ کہتے جاتے، میرے اللہ توتو، تو ہی ہے، میرے اللہ تیرے کرم کے کیا کہنے، میرے اللہ تو تو تو ہی ہے، کیسے مراد پوری کی۔ جہاز میں وقت تھا، پاس بیٹھ گئے بولے، یہ میرا حج آپ کے صدقہ میں ہوا، میں نے عرض کیا کیسے؟ بولے: دو سال سے آپ سے ملنا چاہ رہا ہوں، چھ بار پھلت گیا، تین بار دہلی، غریب آدمی ہوں، سفر خرچ بھی بڑی مشکل سے ہوتا ہے، چھ مہینے پہلے میں آپ سےملنے اوکھلا بٹلہ ہاؤس کی جامع مسجد میں گیا، وہاں لوگوں سے معلوم کیا تو ایک صاحب نے بتایا کہ ان سے ملنا بہت مشکل ہے، میں نے کہا کیوں؟ انہوں نے کہا وہ بیزی (مصروف) ہیں، مجھے یہ خیال ہوا کہ یہ کوئی بڑی سخت بیماری ہے جس کی وجہ سے آدمی ملنے کے لائق بھی نہیں رہتا۔ میں اللہ کے سامنے بہت رویا، یااللہ حضرت کی ’’بیزی‘‘ بیماری ٹھیک کردے‘ رات کو واپسی ممکن نہیں تھی‘ امام صاحب سے اجازت لےکر مسجد میں رک گیا، عشا کی نماز کے انتظار میں بیٹھا تھا، ایک نمازی آئے اور بولے حاجی جی ذرا سا داہنے کھسک جائیے، میں نے کہا میں حاجی نہیں ہوں، مجھ پر رقت تو طاری تھی پھر رونے لگا، میرے اللہ اس نے مجھے حاجی کہا تیرے گھر میں، مجھے حاجی بنانا تیرے لیے کیا مشکل ہے، خوب دعا کی، نفل وغیرہ پڑھ کر ہوٹل پر کھانا کھانے کیلئے نکلا تو وہ نمازی جو میرے برابر میں نماز پڑھ رہے تھے انہوں نے مجھے کہا: اباجی میں آپ کو حج کرانا چاہتا ہوں، آپ حج کا فارم بھردو، یا آپ مجھے معلومات بھیج دو میں فارم بھروا دوں گا۔ میں نے پہلے ذرا معذرت کی انہوں نے زور دیا، تو میں نے اللہ کی طرف سے سمجھا، فارم بھروا دیا مگر نمبر نہیں آیا تو انہوں نے کہا پاسپورٹ بنوالو، اتنی جلدی پاسپورٹ بنوانا مشکل تھا مگر پھر بھی میں چندی گڑھ گیا، کسی نے کہا پاسپورٹ افسران میں کئی، سائیں عبداللہ کے معتقد ہیں، سائیں جی کے پاس گیا انہوں نے ایک افسر کو فون کردیا، رات آٹھ بجے تک ایک افسر نے ایک دو لوگوں کوروکے رکھا اور پاسپورٹ بن گیا، ٹور والے کو پاسپورٹ دےدیا اب اللہ نے ایئرپورٹ تک بھجوا دیا اور پھر حج میں آپ کے ساتھ کردیا، دو سال سے ڈھونڈ رہا ہوں آپ کو، اللہ نے کہاں ملایا، یہ کہا اور پھر وہی حضوری کا حال، میرے اللہ تو تو تو ہی ہے۔ اس خوش نصیب حاجی کےساتھ سفر نصیب ہوا، ایسی حضور کی کیفیت ان تعبداللہ کانک تراہ کی اولین کیفیت، اس خوش نصیب بندہ خدا پر دوام کے ساتھ طاری تھی، اس حقیر نے اس اچھی حالت کا سبب تلاش کیا تو معلوم ہوا کہ حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ ان کے علاقے میں آئے تھے تو کھیت کا کام چھوڑ کر ان سے جاکر بیعت ہوگئے تھے اور وہاں بار بار حاضری بھی ہوجاتی تھی۔ آج تک بھی ان کا خیال آجاتا ہے تو یقین ہوتا ہے کہ’’ ترجمہ:ہم اپنے بندہ سے شہ رگ سے زیادہ قریب ہیں‘‘ اور’’ترجمہ:جب میرا بندہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں قریب ہوں، پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں، جب وہ پکارتا ہے‘‘ کے یقین کے ساتھ جب کوئی بندہ اپنے رب سےکوئی چیز مانگتا ہے تو اسے قریب پاتا ہے اور دہلی اور پھلت کا کرایہ مشکل ہوتے ہوئے بھی حج بیت اللہ کے سفر کیلئے اسباب پیدا فرما دیتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں